گرینڈ امام شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب کے اقوال میں سے “مسلمانوں میں تکفیر کا انتشار ہماری عرب اور اسلامی قوم کا سب سے خطرناک مسئلہ۔
—————-
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں ہماری عرب اور ملت اسلامیہ کے سب سے سنگین مسائل میں سے ایک مسئلہ مسلمانوں کی تکفیر اور ان کے قتل و غارت گری کے حل کے لیے فتویٰ کا انتشار ہے۔
اور یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہے کہ آج ہمارے معاشرے بہت زیادہ جھیل رہے ہیں، اور ہم سمجھتے تھے کہ ان تکفیری گروہ کو اپنے مذہب کی صحیح سمجھ اور صحیح معرفت حاصل ہو گئی ہے، اور گزشتہ نوے کی دہائی سے مصر اور دوسرے ممالک میں اس لعنت اور اس کے تباہ کن نتائج سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔ تاہم ہمیں اس لعنت پر حیرت ہوئی جو آخر کار اپنے بدصورت چہرے کے ساتھ ہمارے ممالک پر نمودار ہو رہی ہے اور ایشیا اور افریقہ کے تمام عرب اور اسلامی لوگوں کی نیندیں اڑا رہی ہے۔ یہ معصوم،غافل لوگوں کو مارتی، تباہ کرتی ، بم سے اڑاتی اور قتل کرتے ہے، اور لوگوں کی زندگیوں کو ناقابل برداشت جہنم میں بدل دیتی ہے۔
یہ انتہائی دردناک اور تکلیف دہ ہے کہ یہ جرائم اسلام اور اس کے روادار شرع کے نام پر کیے جاتے ہیں اور ان کی تخریبی کارروائیاں نعروں اور تکبیروں کے ساتھ اور خدا کی خاطر جہاد اور شہادت کی پکار کے ساتھ کی جاتی ہیں۔ . وہ معاملہ جس کا مغربی میڈیا نے اسلام کی تصویر کو مسخ کرنے کا بدترین فائدہ اٹھایا اور اسے دنیا کے سامنے ایک وحشی مذہب کے طور پر پیش کیا جو خونریزی اور بے گناہوں کے قتل کے پیاسے ہیں۔جو کہ تشدد کو ہوا دیتا ہے اور اپنے بچوں اور پیروکاروں کے درمیان نفرت اور دشمنی کو ہوا دیتا ہے۔
مخالفین کی تکفیر کرنے والوں کی تکفیر کا یہ واقعہ – اور اس کے نتیجے میں خون بہایا جانا – اسلامی معاشروں کے لیے نیا نہیں ہے، اور اس کی فقہ مسلمانوں کے لیے کوئی نئی فقہ نہیں ہے۔
ہم سب نے خارجیوں کے فرقے کی تاریخ، اسلامی ریاست کے قلب میں اس کا ابتدائی ظہور اور اس کے نظریاتی اور فقہی تصور میں سابقہ انحراف کے نتیجے میں اس تباہی کی طرف کس طرح انحراف کیا اس کا مطالعہ کیا ہے، اور میرا مطلب یہاں اللہ تعالی پر ایمان اصل کی حثییت سے اور اعمال فرع کی حثییت کے مفہوم کے درمیان تعلق کا غلط مفہوم ہے اور یہ کیسے گمراہ ہو گیا جب کہ وہ نصوص کے کچھ مظاہر سے چمٹۓ ہوئے اور کچھ دوسرے مظاہر سے منہ موڑ لیتے ہیں جو کچھ قرآنی نصوص سے ان کی سمجھ میں آنے والے اور اس کے برعکس ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔