الازہر گریجوایٹس “ بین الاقوامی طلباء کی غلط مفاہیم کی تصحیح “ : مجاز سے انکار غلط فہمی پیدا کرتا ہے اور انتہا پسندانہ سوچ پیدا کرتا ہے۔
الازہر یونیورسٹی کے سابق صدر اور عالمی تنظیم برائے الازہر گریجویٹس کے علمی مشیر ڈاکٹر ابراہیم الہدہد نے تاکید کی کہ: مجاز ان نصوص کی اہمیت کا دوسرا پہلو ہے جس پر عقیدہ کے احکام قائم ہیں۔ نصوص میں مجاز کا نفاذ صرف اور صرف عربی زبان والوں کو معلوم مخصوص اصولوں سے ممکن ہے، اور ان اصولوں کے بغیر لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے ہٹانا سمجھ میں انتشار کا باعث بنتا ہے۔
یہ بات عالمی تنظیم برائے الازہر گریجویٹس کی طرف سے قاہرہ میں واقع اس کے ہیڈ کوارٹر میں، مختلف قومیتوں کے بین الاقوامی طلباء کے لیے منعقد کردہ تصورات کی تصحیح کے کورس کے دوران “مجاز اور شریعت اور عقیدہ کی تفہیم پر اس کے اثرات” پر ان کے لیکچر کے دوران سامنے آئی۔
ڈاکٹر الہدہد نے وضاحت کی کہ قرآنی متن اپنی فصاحت و بلاغت کے ساتھ معجزانہ ہے اور قرآن کریم نے عربی فصاحت کے اعلی ترین اسلوب کو اختیار کیا ہے جن میں حقیقت اور مجاز پر لفظ کا استعمال بھی شامل ہے۔، لہٰذا قرآنی مجاز اس کے اہم ترین لسانی موضوعات میں سے ایک ہے۔
لیکچر کے اختتام پر، انہوں نے تربیت حاصل کرنے والوں کے سوالوں کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے جس میں انہوں نے حدیث کی غلط اور صحیح معنی کی وضاحت بھی کی “مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ گواہی (کلمہ پڑھ کر مسلمان )نہ دیں…”، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ انتہا پسند گروہ اپنے کیئے میں پڑ گئے۔ جو انتہا پسند جماعتیں ہیں یہ تشدد اور انتہاپسندی کی طرف اس لئے گئیں ہیں کیونکہ انہوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کہ کلام کے اندر جو قرائن ہیں انہوں نے لفظ ناس کو عام سے نکال کر خاص کے مفہوم میں داخل کردیا ہے ، اور یہ کہ حدیث میں مذکور لفظ “أقاتل “ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا جو عمل ہے وه ایسے قرائن ہیں جن سے مراد” ناس” عام لوگ نہیں بلکہ خاص (جنگ کرنے والے) مراد ہیں.