تشدد اور انتہا پسند گروہ نظریاتی بنیادوں پر پہلے جیسے خارجیوں سے ملتے جلتے ہیں
جامعہ الازہر کے سابق صدر اور عالمی تنظیم برائے الازہر گریجویٹس کے علمی مشیر ڈاکٹر ابراہیم الہدہد نے کہا: کہ خوارج کی تاریخی جڑیں قدیم دور تک جاتی ہیں۔ جیسا کہ سنہ 36 ہجری میں وہ ایک گروہ میں تبدیل ہوئے اور پھر کئی گروہوں میں بٹ گئے، اگرچہ مختلف اوقات میں ان کے ناموں میں اختلاف تھا، لیکن وہ فکری اصولوں پر متفق تھے۔
خوارج کی اصطلاح
یہ بات ( اصطلاح خوارجی .. تاریخی جڑیں اور جدید ماڈل) کے عنوان سے ایک لیکچر کے دوران سامنے آئی ، جو عالمی تنظیم برائے الازہر گریجویٹس کے زیر اہتمام انٹرایکٹو لیکچرز پروگرام کی سرگرمیوں کے ماتحت ؛ قاہرہ میں اس کے صدر دفتر میں متعدد بین الاقوامی طلباء کے لیے غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا ۔
ڈاکٹر الہدہد نے وضاحت کی کہ خوارج کی فکری ابتداء صحابہ کے فہم کو مدنظر رکھے بغیر قرآن و سنت کے نصوص کے براہ راست فہم سے ظاہر ہوتی ہے، جس طرح وہ صرف اپنے شیخوں سے علم لیتے ہیں، اور اپنے شیوخ کے فہم کو حق سمجھتے ہیں اورجو کچھ ان کے علاوہ ہے وہ باطل، اور وہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ان لوگوں کے عقائد و افعال کا فیصلہ کرنے کا حق ان کے پاس ہے جو ان کے قول و فعل میں ان سے اختلاف کرتے ہیں۔ لہذا یہ بات انہیں ان لوگوں کے سامنے ہتھیار اٹھواتی جو ان کی رائے سے متفق نہیں ہیں۔
ڈاکٹر الہدہد نے وضاحت کی کہ اگر ہم ان فکری نشانیوں کو لیتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اطلاق تشدد اور انتہا پسندی کے عصری گروہوں پر ہوتا ہے، جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے سامنے ہتھیار اٹھاتے ہیں جو ان سے اختلاف کرتے ہیں اور مذہب کے دشمنوں خلاف ہتھیار نہیں اٹھاتے۔
آخر میں، انہوں نے مختلف قومیتوں کے شرکاء کے سوالات کے جوابات دیے، جن میں لیکچر کے موضوع کے بارے میں سوالات شامل تھے، اور انہوں معتمد تفاسیر کے ذریعے اور شرعی دلائل کے ساتھ جوابات دئیے