الھدھد: انتہا پسندوں نے اپنی غلط فہمی کی بنا پر نصوص شرعیہ سے بعض فقہی مسائل کو اعتقادی مسائل بنا دیا ہے۔


________________________

عالمی تنظیم برائے الازہر گریجویٹس کے علمی مشیر ڈاکٹر ابراہیم الہدہد نے تاکید کی کہ قران و سنت میں وارد شرعی نصوص اور عربی زبان کی سمجھ بوجھ کے اصول ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ جو انکی تفسیر کرنا چاہے ضروری ہے کہ وہ لغوی اساس پہ ملکہ رکھتا ہو تاکہ غلط فہمی سے بچ سکے۔
یہ انکے “لغوی اساس جو غلط فہمی سے محفوظ رکھے” کے موضوع پر دیئے گئے لیکچر میں مذکور تھا؛ جس کا انعقاد وافدین (نائیجیریا، پاکستان، افغانستان، ترکی، تنزانیا، ترکمنستان، لیبیا، صومال اور بورکینافاسو سے تعلق رکھنے والے) طلبہ کی تنظیم نے کیا تھا تاکہ وہ اپنی تبلیغی صلاحیتوں کو جلا بخش سکیں اور الازہر الشریف کے معتدل علوم سے اپنے آپ کو شرعی اور علمی لحاظ سے مضبوط بنا سکیں۔ اور یہ اس تنظیم کی انتہا پسند فکر کے خاتمے اور الازھر الشریف کی روحانی اولاد کو اسکے صافی چشموں سے صحیح شرعی علوم کیساتھ مضبوط کرنے کی کوششوں میں سے ہے۔
ڈاکٹر ھدھد نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ یہ “لغوی اساس جو غلط فہمی سے محفوظ رکھے” نصوص کے نزول کے اسباب اور اوقات کی شناسائی کو بیان کرتی ہے بالخصوص قران مقدس میں آنے والی نصوص کیونکہ قران مقدس تیئیس سال کے عرصے میں نازل ہونے والی آیات کو جمع کیے ہوئے ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ آیات کے نازل ہونے کے حالات اور وسیع سیاق و سباق کا لحاظ رکھتی ہے۔
جیسے کہ ڈاکٹر ھدھد نے ایک بہت اہم مسئلہ بیان کیا جسے انتہا پسندوں نے اعتقادی مسئلہ بنا دیا کہ قبر والی مسجد میں نماز پڑھنا۔ انہوں نے اسے کفر قرار دیا یا بدعت کہہ دیا۔ اسکی وجہ انکا لغوی اساس سے بے بہرہ ہونا ہے۔
ڈاکٹر ھدھد نے یہ بھی کہا کہ یہ انتہا پسند یہ مسائل صحیح نہ سمجھ سکے اور بعض فقہی مسائل کو اعتقادی مسائل بنا دیا۔ اور سلف صالحین، تابعین اور راسخ علماء نے اسے بیان نہ کیا یہ جانتے ہوئے کہ یہ لوگ الفاظ اور انکے ظاہر سے اخذ کرتے ہیں نہ کہ انکے معانی سے، اسکی وجہ فقدان علم و معرفت ہے۔
اور یہ کہا کہ یہ اسے رسمی مذہبیت کے طور پر لیتے ہیں اور دلوں کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ مغرب بھی ہم سے یہی چاہتا ہے تاکہ وہ اسلام کو قدامت پسندی کی صورت میں ظاہر کر سکے

زر الذهاب إلى الأعلى