شیخ الازہر نے حقوق اور آزادی کے جھنڈے تلے ہم جنس پرستی کو معمول پر لانے کے خطرے سے خبردار کیا ۔


گرینڈ الامام ، شیخ الازہر الشریف ڈاکٹر احمد طیب نے فرانسیسی صحافیوں کے وفد اور مفکرین سے مشیخہ الازہر میں ملاقات کی، تاکہ فکری انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے الازہر کی حکمت عملی کے بارے میں ان کے سوالات کے جوابات دیے جا سکے۔ گرینڈ امام نے فرانسیسی وفد کا الازہر الشریف میں خیرمقدم کیا، وہ ادارہ جس نے روشن خیال اعتدال پسند علوم کو پھیلانے میں ایک ہزار سال سے زائد کا عرصہ گزارا ہے، اور اللہ تعالی اس کو اہل علم اور طلباء علم علموں کے لیے ایک روشنی اور منزل کے طور پر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ الازہر کا نصاب اپنی پوری تاریخ میں اندرونی اور بیرونی طور پر امن پھیلانے اور سب کے درمیان بھائی چارے، بقائے باہمی اور یکجہتی کی اقدار کو مستحکم کرنے کےلئے کوشاں ہے ۔ اسلام اور اس کے نام -جھوٹ اور بہتان -پر جو کچھ ہو رہا ہے قتل، تباہی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے بارہا ان مجرمانہ کارروائیوں سے اسلام کی لا ترلقی اور برأت کا اعلان کیا ہے اور ہم نے ان لوگوں کی خرافات کی تردید کی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام مذہب اور عقیدہ میں اختلاف رکھنے والے غیر مسلموں کے قتل کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اللہ تعالی نے اختلاف کو ایک عالمگیر معیار بنایا، اور اگر خدا چاہتا تو تمام لوگوں کو یکساں بنا سکتا تھا ، اور “دین میں کوئی جبر نہیں” کے اصول کو قائم کیا، اور لوگوں کے درمیان ترلق کو پہچان اور تعاون سے تعبیر کیا. شیخ الازہر نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام نے کسی کو زبردستی اسلام قبول کرنے یا اس میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کرتا ، بلکہ مسلمانوں کو مثبت بقائے باہمی اور آشنائی، حکمت اور اچھی نصیحت سے نمٹنے اور معاشروں کی ترقی کے لیے تعاون کرنے کی تاکید کی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جن انتہاپسند گروہوں کو کچھ لوگ اسلام سے جھوٹا منسوب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ایک سیاسی من گھڑت چال ہے جو جان بوجھ کر مذہب کو مسخ کرنے کے لیے جائز لڑائی اور زمین پر بدعنوانی پھیلانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، اور انھیں ٹریننگ، ہتھیار، مالی امداد اور ان مضبوط حفاظتی رکاوٹوں کے باوجود کہ ریاستی سرحدیں محفوظ ہیں اور جدید ترین ذرائع اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کے باوجود ایک جگہ سے دوسری جگہ باآسانی منتقلی کے ذریعے انہیں مدد فراہم کرتے ہے،۔ گرینڈ امام نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ان انتہا پسند دہشت گرد گروہوں کا سب سے زیادہ نشانہ مسلمان بن رہے ہیں جو ہمارے اسلامی ممالک کے آس پاس اپنے زیادہ تر جرائم کو انجام دیتے ہیں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اصل مسئلہ وہ افراتفری ہے جس کا آج دنیا سامنا کر رہی ہے، اور جو مشرق و مغرب میں آج دنیا کی قیادت کر رہے ہیں، انہیں نئے ذہنوں اور دوسرے دلوں کی ضرورت ہے۔ گرینڈ امام نے اشارہ کیا کہ الازہر کے پاس دنیا بھر کے اماموں اور مبلغین کی ٹریننگ کے لیے الازہر انٹرنیشنل اکیڈمی میں ایک پروگرام موجود ہے۔ جس میں یہ دو ماہ کی مدت کے لیے اماموں کی میزبانی کی جاتی ہے، اور الازہر کے پروفیسروں اور اسکالرز کے ایک گروپ کے ذریعے ان کے ساتھ بات چیت اور گفتگو کی جاتی ہے، تاکہ ان کی صلاحیتوں کو نکھارے اور انھیں وہ مہارتیں فراہم کی جائیں جن کی انھیں شدت پسند گروہوں کے شواہد کی تردید کرنے کےلئے اشد ضرورت ہے، اور عصری مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہر پروگرام ہر معاشرے کو درپیش چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ملک کے اماموں کے مطابق بنایا گیا، بلکہ دوسرے الفاظ میں شیخ الازہر نے ان معاشرتی بیماریوں جیسے کہ ہم جنس پرستی، کو معمول پر لانے کے خطرے کا اظہار کیا جو اسلامی اور مشرقی معاشروں کی فطرت سے بالکل متفق نہیں ہیں،، اور انہیں آزادی رائے اور اظہار رائے کے جھنڈے تلے طاقت کے ذریعے مسلط کرنا ہے ۔اور یہ مغربی میڈیا کا ایک ایجنڈا ہے جو ہماری عرب اور اسلامی دنیا کی طرف متوجہ ہے، اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ استعمار کی نئی شکل ہے اور یہ فکری استعماریت ہے، جو نوجوانوں کو نشانہ بناتی ہے اور ان کی شناخت ختم کے لیے کام کر رہی ہے اور ان کی اقدار اور اخلاقیات کے نظام اور ان کی پاسداری سے

زر الذهاب إلى الأعلى