تكفيري عقائد اور نفرت کی ثقافت
____________
اگر ہم اسلام، مسلمانوں اور ان کی تہذیب کے لیے مغربی مظاہر کی شکل ، موضوع اور تاریخی لحاظ سے سب سے اہم وجوہات کی تلاش کے عمل میں ہیں ، تو مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ نفرت کے کلچر کی ایک بڑی لہر نے ہمارے کچھ ایسے نوجوانوں کے ذہنوں پر حملہ کیا جنہیں گمراہ کیا گیا تھا اور انہیں ایک ایسے بدنیتی پر مبنی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار کیا گیا جو ہمارے ممالک میں تعلیمی پالیسیوں میں کمزوری اور اس کے نتائج کو دیکھنے کے بعد بڑی احتیاط سے بیرون ملک بنایا گیا تھا۔ یا وہ ان کمزویوں کے سبب جن کے ذریعے بڑی سہولت اور آسانی سے وہ ان لوگوں کو بھرتی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ میں ہماری عرب اور اسلامی دنیا میں تعلیمی بحران پر زیادہ دیر تک بات نہیں کرنا چاہتا، لیکن میں صرف اتنا ہی کہوں گا ؛ کہ یہ ایک ایسی تعلیم ہے جس کے نصاب کے کچھ حصے نے ہمیں اپنے ورثے میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے رجحانات کے تاریخی ذخیرے کو روکنے کی اجازت دی، جو قرآن کریم کی بعض نصوص، سنت نبوی، کی منحرف شدہ تشریحات و تاویلات اور اور ائمہ کے اقوال سے جنم لیتے ہیں۔ جن سے لوگوں کے عقائد کو چھانٹنے اور معمولی وجہ یا حالات کی بناء پر ان کی درجہ بندی کرنے میں اس کا استحصال کیا گیا، اور ٹیڑھے تصورات کے مالکوں کو ایسے فقہی اور نظریاتی اقوال کی طرف راغب کیا جو ایک خاص دور سے وابستہ آفات (مسائل )میں کہے گئے تھے اور انہوں نے ان سے محکم نصوص اور ثوابت قطعی استدلال لیے جو کتاب و سنت کے قطعی دلائل کی نقل کرتے ہیں، اور ان کو بدعت ، فسق اور پھر تکفیر کا معیار بنایا۔! اور ہم نے ان گروہوں کو لاپرواہی اور اندھی جہالت میں یہ جرأت کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ وہ حکمرانوں اور حکومتوں کی تکفیر کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے حکمرانوں کو تسلیم کیا ہے اور اسی طرح وہ علماء کی بھی تکفیر کرتے ہیں کیونکہ وہ حکمرانوں کی تکفیر نہیں کرتے اور وہ ہر اس شخص کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو ان کی دعوت کو رد کرتا ہے اور ان کے امام کی بیعت نہیں کرتا اور وہ ان تمام گروہوں کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو ان میں شامل نہیں ہوتے۔ “اور وہ چوتھی صدی کے بعد کے تمام اسلامی ادوار کو کفر کا دور سمجھتے ہیں ۔ تقلید کے اس بت کی تقدیس کی وجہ سے جو خدا کی بجائے پوجا جاتا ہے۔”… مجھے تکفیری عقائد اور نفرت کے کلچر اور دوسرے کے رد اور حقارت کے درمیان قریبی تعلق پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نفرت انگیز کلچر کے پھیلاؤ میں اس منحرف گروہ کے استحصال سے نوجوانوں میں اس کے زہریلے خیالات کو فروغ دینے میں زبردست تکنیکی پیش رفت ہوئی ، اور سوچے سمجھے طریقوں سے اس کے متاثرین کو ذہنی اور جذباتی لگاؤ ااور پھر طرز عمل اور عملی مشغولیت میں مائل کیا جاتا ہے۔
اس بحران سے نکلنے کا کوئی غیر روایتی راستہ تلاش کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے جس نے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ انتہائی گھناؤنے جرائم کو جوڑ دیا ہے۔ اور میرے خیال میں : اس تکفیری نظریے کی غلط فہمیاں، اور اس کی فیصلہ کن مذمت میں تاخیر، ان سب چیزوں نے اس وبا کو بڑھاوا دینے اور نوجوانوں میں اس کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اور اس سب کے باوجود ؛ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ پوری پوری سرنگ شروع سے آخر تک اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے، بلکہ روشنی اور امید کے بہت سے راستے ہیں، اگر عزم درست ہو، نیتیں خلوص ہوں، کلمہ یکتا ہو اور مفاد ایک ہو۔
گرینڈ امام ، شیخ الازہر ، پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب۔