“الازھر گریجویٹس” ائمہ لبنان سے: جدید مسائل (نوازل اور مستجدات) کے بارے میں فتوی دینا فقہاء کمپلیکس اور دینی امور کمیشن کے ساتھ خاص ہے، اور اسکا حکم لازم ہوگا۔
___________________
ڈاکٹر رمضان قطان ( استاذ کلیہ شریعہ و قانون جامعۃ الازھر ) نے کہا کہ اصطلاحی اعتبار سے نوازل اور مستجدات میں فرق ہے، نوازل اکثر عمومی اور اکثریت کو محیط ہوتے ہیں اور یہ شرعی حکم کے محتاج ہوتے ہیں۔ جبکہ مستجدات اسکے برعکس ہوتے ہیں یہ لوگوں کیلیے تفسیر اور وضاحت کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ باہمی مشاورت سے طے پاتے ہیں جسکے لیے کسی بھی سلطنت میں فقہاء کمپلیکس اور دینی امور کمیشن ہی فتوی دیتے ہیں، جس کا حکم لازمی طور پر نافذ ہوتا ہے۔
یہ بات انکے لیکچر بعنوان “حج میں جدید مسائل (مستجدات) کے بارے میں فتوی جات”میں سامنے آئی جسکا انعقاد عالمی تنظیم برائے الازہر گریجویٹس نے الازہر انٹرنیشنل کورسز اکیڈمی کے تعاون سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کیا۔
ڈاکٹر قطان نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ عبادات کے جدید مسائل سے معاملات وغیرہ کے جدید مسائل میں فتوی کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ پس عبادات میں زیادتی یا کمی کرکے تبدیل کرنا جائز نہیں جبکہ اسکے علاوہ میں جائز ہے۔ اور یہ تاکید کی کہ صحیح فتوی کیلیے کسی بھی عبادت کی خصوصی رعایت اور اسکے جدید مسائل (مستجدات) سے مکمل طور پہ آگاہی ہونا ضروری ہے۔
یہ بھی کہا کہ: فریضۂ حج اپنی خصوصیات کے حوالے سے باقی فرائض سے مختلف ہے پس فتوی میں اسکے مختلف مناسک میں پیش آنے والے مختلف مسائل کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے، ہر منسک کا فتوی دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مناسک میں ریاست کی طرف سے وضع کردہ قوانین کا بھی لازمی خیال رکھا جائے۔
ڈاکٹر رمضان نے حج میں بعض اجتہاد المقاصد سے متعلقہ مسائل بھی بیان کیئے جیسے قربانی کیلیے کارڈ خریدنا۔ پس انہوں نے کہا کہ: اس طریقہ پہ عمل کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ اور اس حوالے سے قربانی کی خرید اور ذبح کیلیے اور اسے تقسیم کرنے کیلیے خصوصی ٹیموں کو ان کارڈز کے ذریعے وکیل بنانے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ جیسے کہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ جس نے حج کے دوران کسی ممنوع فعل کا ارادةً ارتکاب کیا تو اس پر قربانی لازم ہوگی۔
اور لیکچر کے اختتام پہ ڈاکٹر رمضان نے شرکائے کورس کے تمام سوالات کے جوابات دیئے اور جدید مسائل کے حوالے سے علماء کو مکمل علم رکھنے کی اہمیت کو بیان کیا کہ یہ امت کے ائمہ پر لازمی ہے تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو شخصی اجتہاد کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے