تقرير کے جواب میں.. دہشت فرد تنظیم داعش کے ترجمان کی ایک تقریر “اللہ کرے ایسا ہی ہو” کے جواب میں ۔۔۔
____________________
الازھر آبزرویٹری: اب بھی وہ اس جھوٹے موقف پر مضبوطی سے قائم ہے تاکہ وہ جعلی قانونی حیثیت حاصل کر سکے جو کسی بھی دلیل کے موافق نہیں ہے۔
میڈیا پلیٹ فارمز جن کے ذریعے دہشتگرد تنظیم داعش اپنے زہریلے نظریات پھیلا رہی ہے الازہر آبزرویٹری برائے انسداد انتہا پسندی نے تنظیم کے ترجمان ابو حذیفہ انصاری کی تقریر کے مواد کو فالو کیا ہے، جو کہ اس دہشتگرد تنظیم کی دسویں سالگرہ کی مناسبت سے گزشتہ مارچ کی ۲۸ تاریخ کو نشر ہوئی تھی،
انصاری کی تقریر ان باتوں پر مشتمل تھی؛ تنظیم نے پے در پے بڑی شکستیں کھائیں اور چار نام نہاد خلفاء کو کھو دیا اس کے علاوہ اس کے ہزاروں ارکان ان فوجوں کے ہاتھوں کے مارے گئے جن ملکوں میں یہ فعال تھے اور شام اور عراق میں نام نہاد خلافت کو کھو دیا اسکے باوجود داعش کے منہج کی تعریفیں کر رہا تھا جس کے ذریعے انتہا پسندی کو فروغ دے رہے تھے اور قومیت و وطنیت کو ختم کرنا چاہ رہے تھے تاکہ زمین پر اپنی خلافت کو قائم کر سکیں، جیساکہ دہشتگرد تنظیم کے مختلف کارکنان کی تعریفیں کیں جو کہ مختلف علاقوں میں کام کر رہے ہیں اور اپنی تقریر میں دین کی راہ میں موت اور شریعت کے نفاذ کے نظریہ کا پرچار کیا۔
اگر دیکھا جائے تو یہ تقریر جعلی، دینی نصوص میں تحریف اور بہت سے الزامات پر مشتمل ہے، پس الازہر آبزرویٹری اپنے تجزیے میں تصدیق کرتا ہے کہ اس تنظیم کے مقاصد دین اسلام کے فہم صحیح سے کوسوں دور ہیں، پس داعش کا منہج – جیسا کہ سب کیلیے واضح ہے- اس دین اسلام کے دشمنوں کی خدمت کر رہا ہے۔
آبزرویٹری نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ دہشتگرد تنظیم داعش ابھی تک اس مؤقف پر مضبوطی سے قائم ہے جسکے ذریعے وہ اپنے بطلان کو چھپا سکے تاکہ جعلی قانونی حیثیت حاصل کر سکے جو کہ کسی بھی حجت یا دلیل کے موافق نہیں ہے۔
الازہر آبزرویٹری کے تجزیے کے مطابق اس تقریر کا مرکز زمانہ جاہلیت کے نظریات ہیں جو کہ حالیہ مسلم معاشرے کیلیے بدنامی کا باعث ہیں، تقریر میں لفظ “جاہلی” نو مرتبہ ذکر کیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی اس کا محور ہے، جس کا مقصد لوگوں کے ذہنوں میں وہ باتیں لانا تھا جو کفار اسلام سے پہلے کیا کرتے تھے اور موازنہ کرنا تھا آج کے اس معاشرے اور اس معاشرے کا کہ جب اسلام کا سورج طلوع بھی نہیں ہوا تھا۔
اور حقیقت یہ ہے کہ یہ اسکا غلط استعمال ہے جو کہ عدم فہم پر دلالت کرتا ہے، جبکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جن پر دور جاہلیت کا معاشرہ عمل پیرا تھا بلکہ آپ نے ارشاد فرمایا “ مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کیلیے بھیجا گیا ہے”۔ یعنی اس دور میں بھی کچھ اخلاق ایسے تھے جنہیں اسلام نے باقی رکھا بلکہ اسکی طرف دعوت دی۔
اس کا مطلب – اس کے نزدیک- جاہلیت کا معاشرہ ہمارے آج کے معاشرے سے بہتر تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس جاہلیت کے معاشرہ کو ) اللہ کی وحدانیت اور شرک کو ترک کرنے کی دعوت دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حجة الوداع کے موقعہ پر ارشاد فرمایا “ شیطان تمہاری سرزمین پر پوجا ہونے سے مایوس ہو گیا”۔ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ضمانت دے دی کہ اب تم کبھی بھی شرک کی گمراہی کی طرف نہیں جاؤ گے تو پھر اس بات کو کیوں منسوب کیا جا رہا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت کی نفی کرتی ہے۔؟؟
اور اگر لفظ “جہاد” کو دیکھا جائے جس کا ذکر انصاری کی تقریر میں ۲۳ مرتبہ ہوا، آبزرویٹری زور دیتی ہے کہ یہ سینکڑوں، بلکہ بہت سے ممالک میں ہزاروں معصوم عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کے قتل کے آلہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور یہ بغیر جہاد کے قتل ہے، کیونکہ جہاد تو وطن اور دین کے دفاع کا نام ہے۔ غزوہ بدر و احد میں مسلمانوں نے دین کا دفاع کرتے ہوئے جہاد کیا جبکہ وہ اپنی سرزمین پر تھے اور دشمن کی خون ریزی کرکے، انکا مال سلب کرکے اور حقوق سلب کر کے جنگ کرتے تھے، جبکہ دہشتگرد تنظیموں کی تلواریں مسلمانوں کی ہی گردنوں پر لٹکتی رہتی ہیں۔ مزید یہ کہ جہاد کا مقصد صرف قتل ہی نہیں بلکہ مسلمان اپنے دشمنوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیا کرتے تھے۔ یہ بات ایک بہت بڑے فلسفے پہ قائم ہے کہ جب مسلمانوں کو دوسرے ممالک میں دین اسلام کی طرف دعوت دینے کی اجازت مل گئی تو پھر جنگ ہی نہیں ہوگی، اور آج کل تو دعوت کے بہت سے طریقے ہیں، لیکن یہ لوگ ان طریقوں سے روکتے ہیں اور تشدد اور خونریزی کے طریقے پر چلتے ہیں نصوص کو غلط استعمال کرکے اور ان میں صریح تحریف کر کے۔