الازہر گریجوایٹس تنظيم : انتہا پسندوں نے احادیث نبوی کو غلط سمجھا۔
جامعہ الازہر کے سینئر علماء کونسل کے شریعہ محقق ڈاکٹر ایمن الحجار نے تنظیم برائے الازهر گریجوایٹس میں لیبیا کے آئمہ کے کورس میں اپنے لیکچر بعنوان “شدت پسندوں کی طرف سے احادیث نبویہ کا غلط مفہوم ” میں احادیث کے غلط فہمی کے اسباب پر گفتگو کی ۔
اور ان اسباب میں عربی زبان کے قواعد وادب میں ناپختگی ،نصوص میں غلط فہمی اور وہ تاویل جس کی کوئی علمی دلیل نہیں اور اسی طرح ایک حدیث کی روایات کا جمع نہ ہونا ،مقاصد شرعیہ کی روشنی میں حدیث کی عدم فہم پر گفتگو کی.
ڈاکٹر الحجار نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ بعض لوگوں میں حدیث کے وارد ہونے کی وجہ کا علم نہ ہونا یہ ایک خطرناک وجہ ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں الجھن اور غلط فہمی کا باعث ہے،جو کوئی بھی حدیث کی تشریح کرتا ہے اسے حدیث کی وجہ کا جائزہ لینا چاہیے۔ کیونکہ وہ اس صورت حال کا احاطہ کرتا ہے جس میں حدیث صحیح اور درست سمت میں وارد ہوئی،لیکن إلمام (كسی بھی چیز میں مہارت ) حدیث کا نزول مع تناقل اور تواتر کے سبب مکمل نہیں ہو سکتا، اس لیے عیب پیدا ہو جاتا ہے اور کچھ لوگ اسے غلط سمجھتے ہیں، جس سے شدت پسندوں کو حدیث کے مفہوم کو اس کے حقیقی معنی کے بغیر تشریح اور لوگوں تک پھیلانے کا موقع ملتا ہے،یہ لوگوں کے درمیان ملک میں تشدد اور بدعنوانی کا باعث بنتا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم حدیث کے نزول کی وجہ اور اس کے ماخذ کی چھان بین کریں تاکہ ہم صحیح فہم حاصل کر سکیں اور اس پر عمل کر سکیں۔
ڈاکٹر الحجار نے مزید کہا کہ سب سے اہم حدیث جسے شدت پسندوں نے غلط سمجھا وہ یہ کہ “”مجھے حکم دیا گیا کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک وہ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا شروع کر دیں،نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، پس جنہوں نے یہ کیا تو ان لوگوں مجھ سے اپنا خون اور مال محفوظ کر لیا سوائے اس حق کے جو اسلام کی وجہ سے واجب ہوگا، باقی رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے“ انہوں نے اس حدیث کو اپنی مجرمانہ کارروائیوں کے ثبوت کے طور پر لینے کی کوشش کی جس میں انہوں نے بہت سی معصوم جانیں لیں،اور یہ حدیث بھی، “کیا آپ سنتے ہیں، ”اے گروہ قریش تم سنتے ہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے میں تمہارے پاس قربانی لے کر آیا ہوں” تنبیہ کرتے ہوئے کہ انتہا پسندوں نے اسے غلط سمجھا، اور انہوں نے یہ جملہ صرف ایک ڈھال کے طور پر لیا تاکہ وہ تباہ کاریاں ، سبوتاژ اور لوگوں میں انتشار پھیلا سکیں،اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دھمکی کے طور پر کہا جب آپ کی قوم ایک دوسرے کو ہاتھوں اور آنکھوں کے ذریعے اشارے کرتے تھے، نہ کہ اس وعید کے طورپر جو اس فعل کے نتیجے میں ہوا تھا.
اور اسی طرح حدیث نبوی ہے کہ ’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے‘‘ تو انہوں نے اس سے سمجھا کہ کوئی بھی انسان وہ اپنے ہاتھ سے نیکی کا حکم دے سکتا ہے اور برائی سے روک سکتا ہے اور اس کا مقصد یہ نہیں ہے بات کرنا ،یہ درست ہے کہ اس سے متعلقہ شخص حاکم ہے، اور افراد کو ایسا کرنے کا حق نہیں ہے۔
حاضرین مجلس میں سے ایک نے سوال کیا کہ اس حدیث “”مجھے حکم دیا گیا کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک وہ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا شروع کر دیں،نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، پس جنہوں نے یہ کیا تو ان لوگوں مجھ سے اپنا خون اور مال محفوظ کر لیا سوائے اس حق کے جو اسلام کی وجہ سے واجب ہوگا، باقی رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے“ ” اور فتوحات اسلامیہ کے درمیان کیا تعلق ہے؟
آپ نے جوابا فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ خدا کا پیغام پہنچائیں اور لوگوں کو اسلام سے آشنا کریں اور انہیں امن اور مواعظ حسنہ کے ساتھ اس کی طرف دعوت دیں ، اور یہ کہ اسلامی فتوحات لوگوں کی درخواست اور بتوں کی پوجا اور دوسری چیزوں کو ترک کرنے کی خواہش پر ہوئیں۔، چنانچہ فتوحات نے فرد کی سچے دین کی تلاش اور خداتعالیٰ کے راستے کو جاننے کی خواہش کو پورا کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مختلف جگہوں پر اسلامی فتوحات اور دین اسلام کا تعارف متعدد طریقوں سے ہوا اور پھیلا، بشمول تاجروں اور مبلغین کے ہاتھوں۔اور مکالمے(ڈائیلاگ) کے ذریعے بھی یہ عمل ہوا ، یہ خاص طور پر تلوار کے زور سے نہیں پھیلا، تو پھر انتہا پسندوں اور اسلامی فتوحات کو چیلنج کرنے والوں نے اس باب کو خونریزی کا سبب کیوں لیا اور اس کے پھیلاؤ کے طریقہ کار کو کیوں چیلنج کیا؟ یہ بات جاری رکھتے ہوئے آپ نے مزید کہا کہ اگر رسول سے جنگ کی جائے، تبلیغ سے روکا گیا اور لوگوں کو دین حق تک پہنچنے سے روکا گیا، تو یہ لوگوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا حق ہے کہ وہ دین کی حفاظت کریں، اور دین کی معرفت لوگوں تک پہنچائیں اور اسے پھیلائیں اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے سامنے اسلام کا دفاع کریں،