انتہا پسند گروہوں کو جواب: دوستی اور دشمنی کا صحت ایمان سے کوئی تعلق نہیں
عالمی تنظیم برائے الازہر گریجوایٹس کے علمی مشیر اور الازہر یونیورسٹی کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم الہد الہد نے کہا انتہا پسند دہشت گرد گروہوں نے عقیدہ الولا(محبت ) ٫ و البرا (دشمنی) کو شریعت کا ایک عظیم درجہ قرار دیا ہے ، بلکہ اسے ایمان کا رکن بھی بنا دیا ہے، اور اس عقیدے کا عدم حصول کفر کا باعث بن سکتا ہے، اور اس ناقص فہم سے انتہا پسندی ان کا عنوان بن گئی ہے، اور نفرت انگیز تقریر ان کی باطل دعوت کا پیش خیمہ ہے، اور اسلام ان تمام نظریات سے معصوم ہے۔
یہ بات تنظیم کے مرکزی دفتر میں مختلف قومیت کے بین الاقوامی طلباء کے لیے منعقدہ ثقافتی بیٹھک میں “محبت اور دشمنی کا مفہوم” پر ان کے لیکچر کے دوران سامنے آئی۔
ڈاکٹر الہد الہد نے وضاحت کی کہ توحید کے علم میں عقیدہ الولا(محبت ) ٫ و البرا (دشمنی) نظریے جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ دل کے ان اعمال میں سے ہے جو ایمان کے عقیدہ کے اثرات سے ہیں، پس وہ مومن ہے جو خدا، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، اس کے فرشتوں، یوم آخرت اور تقدیر پر، اس کی بھلائی اور برائی پر ایمان رکھتا ہو یہ سب کچھ اس کے دل میں حق کے ساتھ تمام مومنین کے لیے محبت، وفاداری، جھکاؤ اور حمایت پیدا کرے گا، اور اس کے نتیجے میں ایسے عقائد اور نظریات کی بے راہ روی ہوگی جو اس کے ایمان کے خلاف ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ الولا(محبت ) ٫ و البرا (دشمنی) کی اصطلاحات کو دوسروں کے ساتھ مسلمانوں کے بقائے باہمی کے نظام کو سمجھنا چاہیے۔ یعنی کہ مسلمان لوگوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے اصول کی خلاف ورزی کیے بغیر اپنا اسلامی تشخص کو برقرار رکھتا ہو اور یہی وفاداری (الولاء) ہے۔
اور البراء سے مراد مسلمان کے لیے یہ ہے کہ وہ اپنے عقیدے کو برقرار رکھے کہ وہ شکوک و شبہات اور اس طرح کی چیزوں سے داغدار نہ ہو، تکفیر میں داخل ہوئے بغیر یا کسی معصوم جان کے خلاف زیادتی کے بغیر ،
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ غیر مسلموں سے دشمنی اور ان کے افراد کو نقصان پہنچانا قرآن و سنت کی صریح نصوص کی خلاف ورزی ہے، مسلمان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بلا تفریق تمام لوگوں کے لیے قول حسنہ کہے، اللہ تعالی نے غیر مسلموں کے ساتھ نیکی سے منع نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ میل جول رکھنے، انہیں تحفے دینے، ان سے تحفہ قبول کرنے، اور ان کی طرف راستبازی کا حکم دیا ہے ۔
لیکچر کے اختتام پر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام دوسرے مذاہب سے دشمنی نہیں رکھتا بلکہ تشدد اور دہشت گردی کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام کی دعوت لوگوں کے تنوع اور اجتماعی تکثیریت پر مبنی ہے اور آپس میں ملنے کا باہمی تعار ف اور تعاون کے سواء کوئی راستہ نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا”يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ) [الحجرات:13].
ترجمہ:”
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔