غیرملکیوں کے لیے ایک لیکچر میں “جہاد کا تصور… شکوک و شبہات اور جوابات”
“”جہاد کا تصور… شکوک و شبہات اور جوابات” کے موضوع پر الازہر گریجویٹس تنظیم نے ایک لیکچر کا انعقاد کروایا جو کہ الازہر گریجویٹس تنظیم نے قاہرہ میں اپنے صدر دفتر میں مختلف قومیتوں کے بین الاقوامی طلباء کے لیے ایک تربیتی کورس کے ضمن میں منعقد کیا ۔
قاہرہ کے کالج آف اسلامک اینڈ عربی سٹڈیز میں تفسیر کے استاد ڈاکٹر تامر خضر نے کہا کہ :قرآن کریم اور اس کی تمام آیات امن اور رحمت کی طرف بلاتی ہیں، انہوں نے وضاحت کی كہ جنگ کے تصور پر اصطلاح “جہاد” کی اجارہ داری کے سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جہاں انتہا پسند گروہوں نے جہاد کے معنی کو غلط استعمال کیا اور قتل کے معنی پر اجارہ داری قائم کی جس سے دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے امیج کو نقصان پہنچا۔
الازہر یونیورسٹی کی فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عربی اسٹڈیز کے پروفیسر نے اس بات پر زور دیا کہ جہاد اصل میں صرف وطن کی حفاظت اور جارحیت کو پسپا کرنے کے لیے تجویز کیا گیا تھا، نہ کہ ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے۔ اور اللہ تعالی کے اس قول کے مطابق اسلام میں اصل تحفظ ہے نہ کہ جارحیت اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا “اور زیادتی نہ کرو، بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔””البقرہ۔
انہوں نے مزید کہا: انتہاپسند گروہوں نے گونج دار نعروں کے ساتھ لوگوں کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کے لیے “جہاد” کا جھنڈا بلند کیا، حالانکہ وہ اصل میں لوگوں کی تقسیم، ریاستوں کے تقسیم ہونے، اور ان معاشروں میں ظلم اور تباہی کا باعث ہیں جن میں وہ نمودار ہوئے۔
خضر نے نشاندہی کی کہ حقیقی جہاد وہ ہے جو قوموں کی ترقی اور تقدم میں حصہ ڈالتا ہے، نہ کہ ان کے زوال اور تہذیب سے پیچھے رہ جانے کے
ہم پر لازم ہے کہ ہم جہاد بالنفس کے لیے جدو جہد کریں جو اس کی تربیت کرتا ہے اور سچائی اور بھلائی کی دعوت دے، اسی طرح عقل کے جہاد اسلام اور مسلمانوں اور حتیٰ کہ پوری انسانیت کی خدمت، تہذیب کو پکڑنے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیئے
آخر میں خضر نے تربیت حاصل کرنے والوں کو ان دہشت گردوں کے اقدامات کے خلاف خبردار کیا جو امن اور رحمت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ الازہر الشریف کے نقطہ نظر کو اس کے اعتدال اور وسطیت کے ساتھ پھیلائیں، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حقیقی جہاد امن اور ترقی کے حصول کا راستہ ہے، لڑائی اور تشدد کا نہیں۔
