ہجرت کا اہم ترین سبق صبر کے بعد فتح اور دین ہر چیز پر مقدم ہے۔ الازہر کے سابق نائب




جامعہ الازہر نے ہجرت نبوی کی یاد اور نئے ہجری سال 1444 کے آغاز کے موقع پر ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا جس کا عنوان تھا: “ہجرت نبوی سے سیکھے گئے اسباق۔” جس میں الازہر کے سابق نائب ڈاکٹر عباس شومان، اور عقیدہ اور فلسفہ کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالمنعم فواد، مسجد کی علمی راہداریوں کے جنرل سپروائزر نے سیمنار میں شرکت کی، اور سیمینار کی نظامت مسجد الازہر کے سربراہ ڈاکٹر ہانی عودہ نے کی۔ تقریب کے آغاز میں ڈاکٹر عبدالمنعم فواد نے کہا کہ جب مسجد الازہر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا جشن منایا جاتا ہے تو ہم پوری دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو متحد کرنے کےلئے تشریف لائے، اور آپ کبھی بھی چرب زبان ، گالی گلوچ یا تیز زبان نہ تھے ، بلکہ آپ قابل قدر اور لوگ کے ساتھ مہربان تھے ، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہجرت ایک مفروضہ مشن ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ ہجرت ہوگی، لیکن اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں ۔
ڈاکٹر عبدالمنعم فواد نے زور دے کر کہا کہ ہمارے دور میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ہجرت پر سوال اٹھاتے رہے ہیں، لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جسے خدا نے کمال دیا ہے، اس میں کوئی شک یا کمی نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ہجرت کا واقعہ عظیم تھا اور اس نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ جیسا کہ رسول کی دعوت مقامی سے عالمی ہو گئی
اس لیے پہلا سبق واضح ہو جاتا ہے، جو یہ ہے کہ نبی کریم نے اپنی قوم کی تکلیف پر صبر کیا اور ہمیں بھی صبر کرنا ہے، اور یہ کہ نبی کریم نے اسباب کو اپنایا اور ہمیں بھی انہیں اپنانا ہے تاکہ خدا ہماری بھی مدد فرمائے جیسا کہ اس نے اپنے رسول کی مدد فرمائی
دوسری طرف، ڈاکٹر عباس شومان نے وضاحت کی کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا ، ہمیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت میں کچھ نیا ملتا ہے،، اور اسلامی تاریخ میں محقق اور مشاہدہ کرنے والا ہمیشہ سبق اور عبرت حاصل کرتا ہے اور سب سے اہم اسباق جو سیکھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے مصائب کے بارے میں علم ہوا اور ان لوگوں نے اپنے دین کی خاطر کتنا صبر کیا۔ یہ وہ دین ہے جو ہم تک بڑی آسان اور سہولت سے پہنچا ہے، ہم اس کے ستونوں اور شرائط کو جانتے ہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وطن چھوڑنا ایک سخت ترین چیز ہے جس کا انسان کو سامنا ہوتا ہے، جس کو انسان صرف اس وقت جان سکتا ہے جب وہ اپنا وطن چھوڑ دیتا ہے۔ ، اور شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وطن چھوڑتے وقت جو الفاظ کہے، وہ وطن سے محبت اور اس سے تعلق کے مضبوط اشارے تھے۔

ڈاکٹر شومان نے مزید کہا کہ رسول اللہ کے ساتھ ہجرت کرنے والی یہ قلیل تعداد مسلمانوں کا مرکز ہیں ، جو ایسے ظلم اور رسوائی سے دوچار ہوئے جس کو کوئی انسان برداشت نہیں کر سکتا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا وطن، مال اور اولاد ترک کر کے آزمائش میں ڈالا، انہوں نے اس پر صبر کیا۔ اور اپنے دین کے ساتھ ہجرت کر گئے،، اور یہ ایک اہم سبق ہے، کہ مذہب کو ہر چیز پر ترجیح دی جاتی ہے، اس کے علاوہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کرتے وقت دین کو مکمل طور پر بیان کرنے کے لیے جو تدریجی طریقہ اختیار کیا، وہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کی تقلید کی ضرورت ہے

زر الذهاب إلى الأعلى