“اسلامک ریسرچ” کے سکریٹری کا انتہا پسندوں کے نظریات اور ان کے لیے بہترین ردعمل پر علمی طریقہ کار اور نظم و ضبط پر تبادلہ خیال


اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر نظیر عیاد نے عالمی تنظیم برائے الازہر گریجوایٹس ادارے کے ہیڈ کوارٹر میں جامعہ الازہر کے متعدد پی ایچ ڈی اور ایم اے محققین ، نیز پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے الازہر کالجوں کے چوتھے اور تیسرے سال کے ممتاز طلبہ کے لیے ایک علمی لیکچر دیا جس کا عنوان ہے: “معاشروں کی ہجرت کی دعوت جائزه اور تنقید ہے”۔
سکریٹری جنرل نے کہا کہ یہ لیکچر انتہا پسندانہ سوچ کا مقابلہ کرنے، غیر معمولی خیالات کو ختم کرنے اور ان کا جواب دینے، اور بین الاقوامی طلباء کے لیے علمی اور معرفی دلچسپی میں جامعہ الازہر کے مختلف شعبوں کی کاوشوں کے تناظر میں ہے جس کی قیادت گرینڈ امام پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب کر رہے ہیں۔
عیاد نے مزید کہا کہ غلو اور شدت پسندی کے اسباب کو کئی چیزوں میں بیان کیا جاتا ہے، جن میں سب سے نمایاں طور پر: سابقہ اور لاحقے کو دیکھے بغیر نص کو سیاق و سباق سے ہٹا کر نص کا انتخابی مطالعہ، اور اس طرح نتیجہ سمجھنے اور نظریئے میں غلطی ہوتی ہے ، ایک مخصوص ایجنڈا پیش کرنے کی خواہش کے علاوہ، وہ ایک منتخب مطالعہ پر کام کرتے ہیں جس سے مذہب میں ان چیزوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس میں نہیں ہے، جس سے مذہب پر طعن کا دروازہ کھولتا ہے اور مذہب پر حملہ کرنے کے آسان رستے کھلتے ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے اشارہ کیا کہ دوسرا مسئلہ ذاتی ترجیح یا سابقہ فکری پس منظر ہوتا ہے ۔ مذہبی نص کے ساتھ معاملہ خواہشات سے دور، غیر جانبداری اور مقصدیت کے مطابق ہونا چاہیے، کیونکہ نص کو سمجھنے میں علم کے پس منظر (سیاق و سباق)کو چھوڑنا علمی تحقیق اور نصوص کو سمجھنے میں ایک غلطی ہے، جسے یہ انتہا پسند استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تیسرا معاملہ جہالت اور علم کی کمی ہے یا علم کے صحیح اصولوں کا حوالہ دیے بغیر کسی خاص رائے کو اختیار کرنا ہے۔ جہاں اس کے پاس وسیع علم ہونا چاہیے، خاص طور پر شان نزول ، آیات کے وراد ہونے کے اسباب اور حکم، متشابہ، مطلق، مقید اور دیگر چیزوں کا وسیع علم ہونا چاہیے، بلکہ اس کےلئے ضروری ہے کہ مذہبی نصوص کو سمجھنے کےلئے ان سب میں جامعیت کی ضرورت ہے۔
عیاد نے واضح کیا کہ چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے مسالک کے علاوہ ایک ہی مسلک کو صرف صحیح کے طور پر دیکھا جائے، جسے جزوی نظریہ کہا جاتا ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اصطلاحات کو زمانے اور منھج دو امور سے دیکھنا چاہیے؛ یہاں ان اصطلاحات کی حقیقت کو سابقہ دو چیزوں کے مطابق واضح کرنا ضروری ہے اور ان اصطلاحات میں جہاد، ہجرت، دارالاسلام اور دارالحرب شامل ہیں۔
سکریٹری جنرل نے لیکچر کا اختتام دہشت گرد گروہوں کی طرف سے قتل و خون بہانے کے لیے استعمال کی جانے والی کچھ آیات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کیا اور ان آیات کے اسباب نزول ،، سیاق و سباق، لاحقے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی مثال کے مطابق ان کی حقیقت کو واضح کیا۔
عیاد نے محققین کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات بھی دیے، جو انتہا پسند گروہوں کے لیے مبلغین کے کردار کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ مذہبی ناخواندگی کو مٹانے، گروہوں کے خطرے کو ظاہر کرنے، ان کے شکوک و شبہات کی تردید اور خاتمہ اور انتہا پسندوں کے ذریعے پھیلائے گئے تصورات کو درست کرنے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ بنیادی بات صحیح مذہبی بیداری ہے اور یہ ان انتہاپسندوں پر شکنجہ کسنے کے لیے سب کی یکجہتی سے حاصل ہوتی ہے تاکہ انہیں کوئی ایسا راستہ نہ ملے جس کے ذریعے وہ پھیل سکیں۔ یہ صرف دين صحيح کو پھیلانے سے ہو گا، اور خاص طور پر سائبر اسپیس سميت ہم ان کےلئے کوئی میدان خالی نہیں چھوڑیں گے

زر الذهاب إلى الأعلى