شیخ الازہر : افغانستان میں لڑکیوں کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روکنا شریعت اسلامی سے متصادم ہے۔
گرینڈ امام ، شیخ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب
نے افغانستان میں لڑکیوں کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم
روکنے کے متعلق دنیا کو ایک پیغام دیا ہے۔ اس پیغام میں انہوں نے کہا ہے : کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روکنے کا فیصلہ شریعت سے متصادم ہے۔انہوں نے کہا جامعہ الازہر کو افغان لڑکیوں کو یونیورسٹی کی تعلیم سے روکنے کے لیے افغان حکام کے فیصلے پر گہرا افسوس ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو اسلامی قانون کے خلاف ہے۔ مردوں اور عورتوں کو مہد سے لحد تک علم حاصل کرنے کے واضح مطالبے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام کی دعوت نے اسلام کی سائنسی، سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں باصلاحیت خواتین میں عظیم ذہن پیدا کیے ہیں اور یہ آج بھی ہر اس مسلمان کے لئے باعث فخر بات ہے جو اللہ اور رسول اور شریعت کا وفادار ہے۔
شیخ االازھر نے سوال کیا کہ اس فیصلے کے ماخذوں سے اہل سنت کی مستند ترین کتابوں میں موجود دو ہزار سے زائد احادیث کیسے چھوٹ گئیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مومنین کی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کی ہیں؟انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ یہ لوگ سائنس، تعلیم، سیاست، اور اسلامی معاشروں کے عروج و زمانہ، ماضی اور حال کے میدانوں میں پیش پیش خواتین اور مردوں کی مسلمانوں کی تاریخ کو کیسے بھول گئے؟
اس سلسلے میں اس فیصلے کے جاری کرنے والوں کی توجہ بخاری کے شارحین کے سرخیل امام حافظ ابن حجر کی کتاب تہذیب التہذیب کی طرف مبذول کرانے پر اکتفا کروں گا۔ تاکہ وہ جان جائیں اگر نہیں جانتے تو – کہ انہوں نے تقریباً ایک سو تیس خواتین کا ذکر کیا جن میں حدیث کی راویہ، فقیہ، مؤرخہ اور مصنفہ شامل ہیں۔ جن میں صحابیات و تابعیات اور ان کے بعد آنے والی خواتین بھی شامل ہیں حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا – حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت عمرہ، حضرت ام الدرداء، حضرت شفاء بنت عبداللہ، حضرت حفصہ بنت سیرین، حضرت فاطمہ بنت منذر، اور کریمہ المروزیہ (امام بخاری کی راوی) ، اور بی بی ہرثمیہ) قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح زینب عاملی (متوفیہ 1332ھ) کی کتاب “معجم اعلام النساء” میں علوم شرعیہ، زبان و ادب میں مسلم خواتین کی ممتاز شخصیات میں سے (450) خواتین سے زیادہ کے ترجمے شامل ہیں۔ اسی طرح یہی چیز ہمیں عمر رضا کحالہ کی کتاب اعلام النساء میں ملتی ہے۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ضمیروں کو یہ چونکا دینے والا فیصلہ کسی مسلمان کو جاری نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جب کہ اس پر قائم رہنا اور اسے جاری کرنے پر فخر کرنا (مزید قابل افسوس ہے)۔ اور میں اور میرے ساتھ الازہر کے علماء جو پوری روئے زمیں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ میں اس فیصلے کو مسترد کرتا ہوں اور اسے ایک ایسا فیصلہ سمجھتا ہوں جو اسلام کی شریعت کی نمائندگی نہیں کرتا، اور یہ قرآن کریم کی دعوت سے یکسر متصادم ہے۔ یہ (قرآن) ایک ایسی کتاب ہے جس میں لفظ علم اور عقل اپنے تمام مشتقات کے ساتھ سو سے زیادہ مرتبہ مذکور ہے۔ جب میں اس سب کا اظہار کرتا ہوں تو میں دو باتوں پر اپنی بات ختم کرتا ہوں:
پہلی بات:
مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اس بات پر یقین کرنے، اور وہم وگمان کرنے سے خبردار کرنا کہ یہ کہنا کہ عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم دینا حرام ہے اور یہ ( یعنی لڑکیوں کو تعلیم نہ دینا) ایسی چیز ہے جس کی اسلام نے منظوری دی ہے، نہیں بلکہ اسلام نے اس کا سختی سے انکار کیا ہے۔ بلکہ یہ ان شرعی حقوق میں سے ایک کا انکار ہے جن کی اسلام نے خواتین کو برابر کی ضمانت دی ہے جیسے مردوں کو ضمانت دی ہے ۔ اور اس کے علاوہ کچھ کہنا اس قیمتی دین پر بہتان ہے۔ اور یہ کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ہر مسلمان مرد اور عورت پر علم حاصل کرنا فرض کیا ہے اور یہی وہ دین ہے جس نے اعلان کیا ہے کہ: کہو: {کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں؟} – [ زمر: 9]- یہ وہ دین ہے جس نے قیامت کے دن علماء کی سیاہی اور شہداء کے خون کے درمیان قدر ومنزلت میں برابری کی ہے ۔
دوسری بات:
میں مسلم افغانستان کے حکمرانوں بھائیوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنا جائزہ لیں۔ حق زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اتباع کی جائے اور یہ کہ ہم سب کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں کوئی چیز ہمارے کام نہیں آئے گی، نہ مال، نہ عزت اور نہ سیاست۔