“الازہر آبزرویٹری کے محقق: انتہا پسند جماعتوں کے نزدیک تنظیم سے وفاداری ایمان کی شرط ہے۔”
______
ڈاکٹر تامر عویس، جو کہ الازہر آبزرویٹری برائے انسدادِ انتہا پسندی کے محقق ہیں، نے کہا کہ انتہا پسند جماعتیں دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے ایک تنگ اور یکطرفہ معیار اختیار کرتی ہیں، جو اس منطق پر مبنی ہوتا ہے: ’’اگر تم مکمل طور پر ہمارے ساتھ نہیں ہو، تو تم اللہ کے دشمن، مرتد یا منافق ہو‘‘ – چاہے وہ شخص ایک نیک مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
الازہر آبزرویٹری کے محقق نے وضاحت کی کہ یہ بند ذہنیت خارجیوں کی فکر سے جڑی ہوئی ہے، جنہوں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو صرف اس وجہ سے کافر قرار دیا کہ وہ ان کے سخت گیر نظریے پر نہیں تھے۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیت “ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون” (جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے، وہی کافر ہیں) کی غلط تشریح کو بنیاد بنا کر ان تمام لوگوں کو کافر ٹھہرایا جو ان کے محدود مذہبی فہم سے اتفاق نہیں کرتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہا پسندانہ دو رخی سوچ دوسروں سے ان کے برتاؤ میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے؛ ان کے نزدیک تنظیم سے بیعت لینا ہی حقیقی اسلام کی شرط ہے، اور کوئی بھی تنقید یا غیر جانب داری ’بڑی خیانت‘ شمار کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ ریاستی اداروں کو بھی کافر قرار دے کر انہیں ’’دورِ جاہلیت‘‘ کی علامت کہتے ہیں، اور معتدل علما کو غدار اور منافق سمجھتے ہیں۔
الازہر آبزرویٹری کے محقق نے اس بات پر زور دیا کہ یہ سوچ نہ تو اسلام کی حقیقی تعلیمات کی عکاس ہے اور نہ ہی اس کے مقاصد کی، کیونکہ یہ اجتہاد کے دروازے کو بند کرتی ہے، اختلافِ رائے اور مکالمے کی ثقافت کو مسترد کرتی ہے۔ انہوں نے اس طرف اشارہ کیا کہ سماجی علوم کی تحقیق کے مطابق یہ سخت تقسیم معاشرے میں دراڑیں ڈالتی ہے، جس سے سماجی تانا بانا ٹوٹتا ہے اور تشدد کے پھیلاؤ کے لیے زرخیز ماحول پیدا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں دین اور تنظیم کو ایک ہی چیز بنا کر پیش کرتی ہیں، جس سے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ تنظیم سے وفاداری گویا اللہ سے وفاداری ہے، اور اس میں شامل ہونا ایمان کی علامت، جبکہ اس سے اختلاف کفر اور اسلام سے خروج بن جاتا ہے۔
آخر میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ نظریہ اسلام کی اس روح کے خلاف ہے جس نے امت کو “امت وسطًا” (میانہ رو امت) قرار دیا، اور جس کی تعلیمات عدل، توازن اور تقویٰ پر مبنی ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
“ولا يجرمنكم شنآن قوم على ألا تعدلوا، اعدلوا هو أقرب للتقوى”
(کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ اُبھارے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو، یہی تقویٰ سے قریب تر ہے)۔