عالمى تنظیم برائے الازہر گریجوایٹس کے صدر نے کہا: “ہمیں ہجرتِ نبوی سے یہ سیکھنا چاہیے کہ اُمت کی وحدت کیسے قائم کی جائے تاکہ ہم دورِ حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔”
عالمى تنظیم برائے الازہر گریجوایٹس کے صدر نے کہا: “ہمیں ہجرتِ نبوی سے یہ سیکھنا چاہیے کہ اُمت کی وحدت کیسے قائم کی جائے تاکہ ہم دورِ حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔”
_________________
عالمى تنظیم برائے الازہر گریجوایٹس کے صدر اور سینیئر علماء کونسل کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عباس شومان نے ہجرتِ نبوی کے پیغامات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان میں ایسی قیمتی نصیحتیں اور عبرتیں پوشیدہ ہیں جو ہمارے موجودہ اسلامی و عربی دنیا کے بحرانوں کا حل فراہم کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں، جہاں مسلم دنیا شدید تقسیم، خانہ جنگی، اور عدم استحکام کا شکار ہے، وہاں ہمیں ہجرتِ نبوی کی حکمتوں سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ مدینہ منورہ کا معاشرہ، جس میں ہجرت ہوئی، کوئی مثالی یا تیار شدہ معاشرہ نہ تھا، بلکہ وہ مکہ کے مقابلے میں نسبتاً کم مزاحم اور زیادہ مناسب ماحول رکھتا تھا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کامیابی کا انحصار مثالی ماحول پر نہیں، بلکہ حالات سے موافقت اور مناسب فیصلے پر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شومان نے وضاحت کی کہ مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنا آسان نہ تھا۔ وہاں اوس اور خزرج دو بڑے قبائل تھے، جن کے درمیان 120 سالہ دشمنی چلی آ رہی تھی۔ ساتھ ہی مدینہ کے آس پاس یہودی قبائل بھی آباد تھے، جنہوں نے اسلام کو قبول کرنے سے انکار کیا اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی اپنائی۔ پھر مکہ سے آنے والے مہاجرین نے مدینہ کے معاشرتی ڈھانچے کو مزید متنوع بنا دیا۔ ان سب کو ایک پرامن اور متحد معاشرہ بنانے کے لیے باہم جوڑنا ایک عظیم چیلنج تھا۔
انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے الله کے حکم سے اوس و خزرج کے دلوں کو جوڑا، جنہیں “انصار” کہا گیا، اور پھر مہاجرین کو ان میں شامل کرکے ایک متحد اسلامی معاشرہ تشکیل دیا۔ یہودی قبائل کے ساتھ نبی ﷺ نے امن کے معاہدے کیے، جن کی مکمل پابندی آپ ﷺ نے کی، لیکن جب انہوں نے عہد شکنی کی تو انہیں مدینہ سے نکال دیا گیا، یوں مسلمان ایک اندرونی دشمن سے محفوظ ہو گئے، اور اب صرف بیرونی دشمن یعنی کفارِ مکہ باقی رہ گئے، جن سے نبی ﷺ دینِ اسلام کی خاطر ہجرت کر کے آئے تھے۔
عباس شومان نے کہا کہ اگر ہم آج کی امتِ مسلمہ کی حالت پر نظر ڈالیں تو وہی پرانی رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں: بیرونی دشمن، داخلی دشمن، اور اسلامی ممالک کے درمیان شدید اختلافات و جنگیں۔ باوجود اس کے کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے اوپر کتنے خطرات منڈلا رہے ہیں، پھر بھی ہم اتحاد اور اتفاق سے دور ہیں۔ اگر اسلامی اور عرب ممالک اعلان کریں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ متحد اور مکمل تعاون میں ہیں، اور کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جائے، تو دنیا کا منظرنامہ بدل سکتا ہے – مگر افسوس، کہ ہم اس حد تک بھی نہ پہنچ سکے۔
آخر میں ڈاکٹر شومان نے عرب و اسلامی اقوام کو ان نازک لمحات میں غفلت اور تقسیم سے بچنے کی تلقین کی، اور کہا کہ ہر ملک کے شہریوں کو اپنی قیادت کے ساتھ ایک صف میں کھڑا ہونا چاہیے، اور اگر کوئی خطرہ لاحق ہو تو متحد ہو کر اس کا سامنا کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے نوجوان نسل کی تربیت دین، تقویٰ، عزتِ نفس، خود انحصاری اور غیرت پر کرنے کی ضرورت پر زور دیا — نہ کہ دوسروں کی طاقت پر انحصار۔