عالمى تنظیم برائے الازہر گریجوایٹس نے غیر ملکی طلبہ کے لیے منعقدہ ایک ورکشاپ میں “مذہبی انتہا پسندی کے مفہوم اور اسباب” پر گفتگو کی
ڈاکٹر الہدهد: اسلام نے مخالفین سے مکالمے کے اصول وضع کیے ہیں
قاہرہ میں عالمى تنظیم برائے الازہر گریجوایٹس کے صدر دفتر میں “مذہبی انتہا پسندی کا مفہوم اور اسباب” کے عنوان سے ایک ورکشاپ منعقد کی گئی، جس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی طلبہ نے شرکت کی، جن میں نائیجیریا، برکینا فاسو، فلپائن، ایتھوپیا، یمن، سوڈان، فلسطین، تنزانیہ، جبوتی، اور لیبیا شامل ہیں۔
بین الاقوامی تنظیم برائے الازہر گریجویٹس کے علمی مشیر اور الازہر یونیورسٹی کے سابق صدر ڈاکٹر ابراہیم الہدہد نے اس موقع پر کہا کہ آج جس مذہبی انتہا پسندی کا سامنا ہے، وہ دراصل دینی متون کے غلط فہم کا نتیجہ ہے، جس نے دوسروں کو کافر قرار دینے، اور ان کے جان و مال کو مباح سمجھنے جیسے تباہ کن نتائج پیدا کیے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اسلام کی اصل تعلیمات رواداری اور وسعت پر مبنی ہیں۔ اسلام ہمیں لوگوں کے باطنی معاملات پر حکم لگانے سے روکتا ہے، اور یہی اس دین کا اصل جوہر ہے، جو انتہا پسندی اور دہشتگردی کے فہم سے یکسر مختلف ہے۔ ہم ان انتہا پسند گروہوں کی طرح نہیں ہیں جو اپنے نظریے سے اختلاف رکھنے والے مسلمانوں کو قتل کرنے تک کا جواز تلاش کرتے ہیں۔
ورکشاپ کے دوران ڈاکٹر الہدهد نے مزید کہا کہ فکری انتہا پسندی – چاہے وہ افراط ہو یا تفریط – صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ یہاں تک کہ بعض سیکولر انتہا پسند جو عقل کو مطلق حاکم سمجھتے ہیں، ان کے ساتھ بھی ہمیں کفر کا فتویٰ نہیں لگانا چاہیے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ مخالفین سے بہتر انداز میں گفتگو اور مکالمہ کیا جائے، جیسا کہ قرآن نے فرمایا ہے: “وجادلهم بالتي هي أحسن” (اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کرو)۔
آخر میں انہوں نے وضاحت کی کہ قرآن کریم کی آیات کو نازل ہونے کے حالات و سیاق کے بغیر سمجھنا اور سنتِ نبوی کو نظرانداز کرنا انتہا پسندی کے بڑے اسباب میں شامل ہے۔ نہ قرآن کو سنت سے الگ کر کے سمجھا جا سکتا ہے، اور نہ سنت کو قرآن سے، کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی وضاحت کرتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ علم کی کمی اور سیاق و سباق سے بے خبری، فکری انحراف کا سب سے بڑا دروازہ ہے۔